آپ کو قافلے کے ساتھ اس لئے نہیں لے جایا گیا تھا کہ آپ کم عمر تھے۔آپ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ادھر بحیرا نے لوگوں کو دیکھا اور ان میں سے کسی میں اسے وہ صفت نظر نہ آئی جو آخری نبی کے بارے میں اسے معلوم تھی،نہ ان میں سے کسی پر وہ بدلی نظر آئی،بلکہ اس نے عجیب بات دیکھی کہ وہ بدلی وہیں پڑاؤ کی جگہ پر ہی رہ گئی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا بدلی وہیں ہے، جہاں اللہ کے رسول ہیں، تب اس نے کہا:
"اے قریش کے لوگو! میری دعوت سے آپ میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔"
اس پر قریش نے کہا:
" اے بحیرا!جن لوگوں کو آپ کی اس دعوت میں لانا ضروری تھا،ان میں سے تو کوئی رہا نہیں...ہاں ایک لڑکا رہ گیا ہے جو سب سے کم عمر ہے۔"
بحیرا بولا:
"تب پھر مہربانی فرما کر اسے بھی بلالیں،یہ کس قدر بری بات ہے کہ آپ سب آئیں اور آپ میں سے ایک رہ جائے اور میں نے اسے آپ لوگوں کے ساتھ دیکھا تھا۔"
تب ایک شخص گیا اور آپ کو ساتھ لے کر بحیرا کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت وہ بدلی آپ کے ساتھ ساتھ چلی اور تمام راستے اس نے آپ پر سایہ کئے رکھا۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا،وہ اب آپ کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا تھا اور آپ کے جسم مبارک میں وہ علامات تلاش کررہا تھا جو ان کی کتب میں درج تھیں۔
جب لوگ کھانا کھا چکے اور ادھر ادھر ہوگئے،تب بحیرا آپ کے پاس آیا اور بولا:
"میں لات اور عزی کے نام پر آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں،جو میں پوچھوں،آپ مجھے بتائیں۔"
اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
"لات اور عزی (بتوں کے نام) کے نام پر مجھ سے کچھ نہ پوچھو!اللہ کی قسم!مجھے سب سے زیادہ نفرت انہی سے ہے۔"
اب بحیرا بولا:
"اچھا تو پھر اللہ کے نام پر بتائیں جو میں پوچھنا چاہتا ہوں۔"
تو آپ نے فرمایا:
"پوچھو! کیا پوچھنا ہے۔"
اس نے بہت سے سوالات کئے۔آپ کی عادات کے بارے میں پوچھا،اس کے بعد اس نے آپ کی کمر پر سے کپڑا ہٹا کر مہر نبوت کو دیکھا وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ اس نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا۔اس نے فوراً مہر نبوت کی جگہ کو بوسہ دیا۔قریش کے لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے اور حیران ہورہے تھے۔آخر لوگ کہے بغیر نہ رہ سکے:
"یہ راہب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )میں بہت دلچسپی لے رہا ہے...شاید اس کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔"
ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے بعد بحیرا ابو طالب کی طرف آیا اور بولا:
"یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے۔"
ابو طالب نے کہا:
"یہ میرا بیٹا ہے۔"
اس پر بحیرا نے کہا:
"نہیں!یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا باپ زندہ ہو۔"
ابو طالب کو یہ سن حیرت ہوئی،پھر انہوں نے کہا:
"دراصل یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔"
"ان کا باپ کہاں ہے۔"
"وہ فوت ہوچکا ہے،اس کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔"
یہ سن کر بحیرا بول اٹھا:
"ہاں!یہ بات صحیح ہے اور ان کی والدہ کا کیا ہوا؟"
"ان کا ابھی تھوڑے عرصہ ہی پہلے انتقال ہوا ہے۔"
یہ سنتے ہی بحیرا نے کہا:
"بالکل ٹھیک کہا...اب تم یوں کرو کہ اپنے بھتیجے کو واپس وطن لے جاؤ،یہودیوں سے ان کی پوری طرح حفاظت کرو،اگiر انہوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان میں وہ نشانیاں دیکھ لیں جو میں نے دیکھی ہیں تو وہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے تمہارا یہ بھتیجا نبی ہے، اس کی بہت شان ہے،ان کی شان کے بارے میں ہم اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہوا پاتے ہیں اور ہم نے اپنے باپ داداؤں سے بھی بہت کچھ سن رکھا ہے،میں نے یہ نصیحت کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے اور انہیں واپس لے جانا تمہاری ذمہ داری ہے۔"
ابو طالب بحیرا کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگئے۔ آپ کو لے کر مکہ واپس آگئے۔اس واقعے کے وقت آپ کی عمر نو سال تھی۔
اس عمر کے لڑکے عام طور پر کھیل کود میں ضرور حصہ لیتے ہیں،ان کھیلوں میں خراب اور گندے کھیل بھی ہوتے ہیں،اللہ تعالٰی نے آپ کو اس سلسلے میں بھی بالکل محفوظ رکھا۔
جاہلیت کے زمانے میں عرب جن برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے،ان برائیوں سے بھی اللہ تعالٰی نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ایک واقعہ آپ نے خود بیان فرمایا:
"ایک قریشی لڑکا مکہ کے بالائی حصے میں اپنی بکریاں لئے،میرے ساتھ تھا۔میں نے اس سے کہا:
"تم ذرا میری بکریوں کا دھیان رکھو تاکہ میں قصہ گوئی کی مجلس میں شریک ہوسکوں،وہاں سب لڑکے جاتے ہیں۔"
اس لڑکے نے کہا:اچھا۔اس کے بعد میں روانہ ہوا۔ میں مکہ کے ایک مکان میں داخل ہوا تو مجھے گانے اور باجے کی آواز سنائی دی۔میں نے لوگوں سے پوچھا،یہ کیا ہورہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک قریشی کی فلاں شخص کی بیٹی سے شادی ہورہی ہے۔میں نے اس طرف توجہ دی ہی تھی کہ میری آنکھیں نیند سے جھکنے لگیں،یہاں تک کہ میں سو گیا۔پھر میری آنکھ اس وقت کھلی جب دھوپ مجھ پر پڑی۔"
آپ واپس اس لڑکے کے پاس پہنچے۔تو اس نے پوچھا: تم نے وہاں جاکر کیا کیا؟میں نے اسے واقعہ سنا دیا۔دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا۔
مطلب یہ کہ قریش کی لغو مجلسوں سے اللہ تعالٰی نے آپ کو محفوظ رکھا۔
قریش کے ایک بت کا نام بوانہ تھا۔قریش ہر سال اس کے پاس حاضری دیا کرتے تھے۔اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔اس کے پاس قربانی کا جانور ذبح کرتے،سر منڈاتے،سارا دن اس کے پاس اعتکاف کرتے۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ اس بت کے پاس حاضری دیتے، اس موقع کو قریش عید کی طرح مناتے تھے۔ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
"بھتیجے!آپ بھی ہمارے ساتھ عید میں شریک ہوں۔"
آپ نے انکار فرمادیا۔ابو طالب ہر سال آپ کو شریک ہونے کے لئے کہتے رہے،لیکن آپ ہر بار انکار ہی کرتے رہے۔ آخر ایک بار ابو طالب کو غصہ آگیا۔آپ کی پھوپھیوں کو بھی آپ پر بے تحاشہ غصہ آیا،وہ آپ سے بولیں:
"تم ہمارے معبودوں سے اس طرح بچتے ہو اور پرہیز کرتے ہو،ہمیں ڈر ہے کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا:
"محمد!آخر تم عید میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟"
ان کی باتوں سے تنگ آکر آپ ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں دور چلے گئے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:
"میں جب بھی بوانہ یا کسی اور بت کے نزدیک ہوا،میرے سامنے ایک سفید رنگ کا بہت قد آور آدمی ظاہر ہوا،اس نے ہر بار مجھ سے یہی کہا:
"محمد! پیچھے ہٹو!اس کو چھونا نہیں۔"
No comments:
Post a Comment