https://www.toprevenuegate.com/bvvwem0r3k?key=a1b903f31d28e6b09d2f4dcfc950ebc9 (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ALLAH_NAMES. With Poetry And Allah Names Taf seer And wazaif

Sunday, 30 November 2025

سیرت النبی ﷺ

 سیرت النبی ﷺ



عنوان: یہ غالب آئے گا


حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا: 

’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘

عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ــ لڑکے تم کون ہو؟‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا: 

’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘

یہ سن کر عبدالمطلب بولے: 

’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘

پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔ 

آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا: 

’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا:

’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘

حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:

’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘

تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینۂ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضیٰ اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘

ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے: 

’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا

کیا یہ بچہ یتیم ہے؟

میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

نہیں! یہ ریے اس بچے کے باپ

تب انہوں نے کہا

اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے.

یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے. اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے. اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.

اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں. جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا. یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا. عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے. حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لییے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی. اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں. اس نے پکار کر کہا

لوگو، اس بچے کو مار ڈالو.

حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں. اس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی.

میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا

کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں

اس نے ان لوگوں کو بتایا

میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا.

یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لییے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الحجاز سے ان کا گزر ہوا. یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا. اس بازار میں ایک نجومی تھا. لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا. حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی. وہ چلا اٹھا.

اے عرب کے لوگو. اس لڑکے کو قتل کر دو. یہ یقیناً تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا.

یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا

ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں. ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا.

کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا: 

"نہيں: کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔"

ان عیسائیوں نے کہا: 

"تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،. یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے ۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔"

حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سےدور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا ۔

ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،. وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا ۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے... 

جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی ۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی ۔

جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی ۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔

ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں ۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے: 

"ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں ۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: 

"یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔"

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں... مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں ۔

Thursday, 27 November 2025

جنت کی راہ

 

 

جنت




ابوهریره رضی عنہ تعالیٰ کہتے ہیں رسول الله صلعم نے فرمایاہے
الله تعالی' نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے
کہ جس کو کسی ایک آنکھ نے
[آج تک]نہیں دیکھا-نہ اسکی خوبیوں کو سنااور نہ کسی انسان کے دل میں اسکا خیال پیدا ہوا
اگر تم اسکی تصدیق چاہو تو یہ آیت پڑھو فلا تعلم نفس ما اخفی'لھم من قرة اعین
یعنی کوئی شخص اس چیز کو نہیں جانتا-جس کو پوشیدہ رکھا گیاہےاور جوآنکھ

کی ٹھنڈک کا سبب ہے


[بخاری ومسلم][-مشکو'ة شریف-جلد دوم-حدیث-5341]






جنت کے دروازے دودن کھلتے ہیں:

                                             
حضرت ابوہریرہ رضی عنہ تعالٰی
فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:


تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فِي كُلِّ یَوْمَ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ۔


(ادب مفرد:۴۱۱۔ مسلم:۲۵۶۵۔ ابوداؤد:۴۹۱۶۔ ترمذی:۲۰۲۳۔ مالک:۲/۹۰۸)
ترجمہ:جنت کے دروازے ہرپیر اور جمعرات میں کھلے جاتے ہیں۔

جنت الفردوس ہرپیر اور جمعرات کوکھلتی ہے:


شبربن عطیہ  رضی عنہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس کواپنے دست مبارک سے پیدا کیا اور اس کووہ ہرجمعرات کوکھولتے اور فرماتے ہیں تومیرے اولیاء (دوستوں) کے لیے اپنی پاکیزگی میں اور بڑھ جا، میرے اولیاء (دوستوں)کے لیے حسن میں اور بڑھ جا۔
(صفۃ الجنۃ ابونعیم)


حضرت شبر بن عطیہ ہی فرماتے ہیں کہ جنت الفردوس ہرجمعرات اور سوموار کوکھولی جاتی ہے؛ پھراس شخص کی بخشش کردی جاتی ہے جواللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور اس شخص کی بخشش نہیں ہوتی جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی ہو۔

(صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۲۸)



جنت کی بشارت


بخاری ومسلم نے حضرت ابوموسی اشعری رضی عنہ تعالٰی سے روایت کیا ہے کہ  وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے ہمراہ ایک باغ میں تھا یہ باغ مدینے کے باغوں میں ایک باغ تھا ،سو ایک شخص دروازے پر آیا اور اس نے دروازہ کھلوایا حضورصلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا دروازہ کھول دو اور اس آنے والے شخص کو جنت کی بشارت دیدو،ابوموسی رضی عنہ تعالٰی کہتے ہیں میں نے باغ کا دروازہ کھولا تو دیکھاحضرت ابوبکررضی عنہ تعالٰی ہیں میں نے ان کو جنت کی بشارت دیدی یہ سن کر انہوں نے خدا کی حمد بیان کی ،تھوڑی دیر کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی عنہ تعالٰی تھے میں نے ان کو یہ بشارت سنادی تو انہوں نے بھی الحمدللہ کہا اس کے بعد تیسرے صاحب نے دروازہ کھلوایا تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ابوموسی باغ کا روازہ کھول دے اور جو شخص آیا ہے اس کو بشارت دو جنت کی اور ایک بلوے میں مبتلا ہونے کی جو اس کو پہنچے گا چنانچہ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت عثمان رضی عنہ تعالٰی تھے میں نے ان کو جنت  کی بشارت اور بلوے کی خبردی جنت کی بشارت پر انہوں نے خدا کی حمد بیان کی اور بلوے کی خبر سن کر کہا اللہ تعالی  کی مدد چاہیے،اس حدیث میں حضورصلّی اللہ علیہ وسلّم  نے جو فرمایا تھا یعنی حضرت عثمان کا اسی مصر وعراق کی بغاوت میں شہید ہونا تو اہل مصر وعراق   نے مدینے پر بلوہ کیا اور حضرت عثمان ذی النورین کو شہید کردیا۔



سیرت النبی ﷺ