Home
- Home
- Quran poetry
- Apps stor
- ھْوَاللہْ الَّذِی لَآِالٰہَ اِلَّا ھْوَ -1
- اَلقْدْوسْ -5
- اَلمْتَکَبِّرْ-اَلخَالِقْ-اَلبَارِئْ
- اَلمْصَوِّرْ- اَلغَفَّارْ- اَلقَھَّارْ
- اَلوَھَّابْ-اَلَّرزَّاقْ-اَلفَتَّاحْ
- اَلعَلِیمْ-اَلقَابِضْ-اَلبَاسِطْ
- اَلخَافِضْ -اَلرَّافِعْ
- اَلمْعِزّْ-اَلمْذِلّْ-ْاَلسَمیِعْ
- اَلبَصِیرْ-اَلحَکَم-ْاَلعَدلْ
- اَللَّطِیفْ-اَلخَبِیرْ-اَلحَلِیمْ
- اَلبَرّْ-اَلتَّوَّابْ-اَلمْنتَقِمْ
Friday, 5 December 2025
Thursday, 4 December 2025
سیرت النبی ﷺ
سیرت النبی ﷺ
عنوان: زم زم کی کھدائی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ١۲ بیٹے تھے - ان کی نسل اسقدر ہوئی کے مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی - ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے - عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا - نزار کے چار بیٹے تھے - ان میں سے ایک کا نام مضر تھا - مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے" یہ فہر بن مالک بھی کہلائے - قریش کی اولاد بہت ہوئی - ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی - ان کی اولاد سے قصیّ نے اقتدار حاصل کیا - قصیّ کے آگے تین بیٹے ہوئے - ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے -
ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی " ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا " اس کا نام شیبہ رکھا گیا - یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا- ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے - ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا " جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے - اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے - مطلّب نے لوگوں کو بتایا " یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے " اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا - اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا - انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب حمزہ, عبّاس, عبداللہ, ابولہب, حارث, زبیر, ضرار, اور عبدالرحمن پیدا ہوئے- ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے - عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا " یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو, اس کنویں کو قبیلہ
جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا - قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے " بیت اللہ کے نگراں تھے - انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی - ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا " وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا " جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا- اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانۂ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈالدیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا - کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا-
اب اس کا نام و نشان مٹ گیا - مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا " بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گذرا - کنواں بند رہا یہاں تک کے قصیّ کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا" انہوں نے خواب دیکھا " خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا :-
" میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا - اس نے مجھ سے کہا "طیبہ کو کھودو "
میں نے اس پوچھا "طیبہ کیا ہے؟"
مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا - دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا " کہنے لگا "برہ کو کھودو "
میں نے پوچھا "برّہ کیا ہے" وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا-
تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا - اُس نے کہا " مضنونہ کھودو "
میں نے پوچھا " مضنونہ کیا ہے؟" وہ بتائے بغیر چلا گیا -
اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا "زم زم کھودو " میں نے اس سے پوچھا "زم زم کیا ہے؟ " اس بار اس نے کہا:
" زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا, جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے "
عبدالمطلب کہتے ہیں, میں نے اس سے پوچھا
"یہ کنواں کس جگہ ہے؟ "
اس نے بتایا -
"جہاں گندگی اور خون پڑا ہے, اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے"
دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے - اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا - انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا, اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کئیے جانے والے جانوروں کا تھا, پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لئیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے -انہوں نے کہا :
" اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے, تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لئیے قربانیاں کرتے ہیں- "
عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا :
"تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو, میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئیے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا- "
قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے - آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی - جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے - یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے
" یہ دیکھو یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے "
جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے :
"عبدالمطلب اللہ کی قسم " یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے" اس لئیے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے -"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا :
" میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا " یہ مجھ اکیلے کا کام ہے"
اس پر قریش نے کہا :
" تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے"
عبدالمطلب بولے :
" کسی سے فیصلہ کروالو "
انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا - یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی - آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے - عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی -
جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی - اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا , وہاں کہیں پانی نہیں تھا - اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا - سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے, یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا - انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا - اب انہوں نےادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا -
عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے, جوں ہی ان کی سواری اٹھی, اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا - انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا - پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے - سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے - اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:"آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو -" اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا - پانی پینے کے بعد وہ بولے:
" اللہ کی قسم.... اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا - اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے - جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گا، اس لیے یہیں سے واپس چلو -"
اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے -
واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی - ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں - اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی - یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا - انہوں نے عبدالمطلب سے کہا :
"عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے -"
ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا :
"نہیں! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے - آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں -"
انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا - دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے.... پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے - اس طرح فیصلہ ہوگیا - عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا -
زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا - اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا -
"اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو -"
Sunday, 30 November 2025
سیرت النبی ﷺ
سیرت النبی ﷺ
عنوان: یہ غالب آئے گا
حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا:
’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘
عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ــ لڑکے تم کون ہو؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا:
’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب بولے:
’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘
پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔
آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا:
’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘
حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:
’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘
تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینۂ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضیٰ اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے:
’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا
کیا یہ بچہ یتیم ہے؟
میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
نہیں! یہ ریے اس بچے کے باپ
تب انہوں نے کہا
اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے.
یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے. اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے. اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.
اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں. جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا. یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا. عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے. حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لییے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی. اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں. اس نے پکار کر کہا
لوگو، اس بچے کو مار ڈالو.
حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں. اس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی.
میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا
کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں
اس نے ان لوگوں کو بتایا
میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا.
یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لییے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الحجاز سے ان کا گزر ہوا. یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا. اس بازار میں ایک نجومی تھا. لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا. حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی. وہ چلا اٹھا.
اے عرب کے لوگو. اس لڑکے کو قتل کر دو. یہ یقیناً تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا.
یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا
ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں. ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا.
کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟
انہوں نے جواب میں کہا:
"نہيں: کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔"
ان عیسائیوں نے کہا:
"تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،. یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے ۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔"
حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سےدور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا ۔
ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،. وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا ۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے...
جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی ۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی ۔
جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی ۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔
ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں ۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے:
"ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں ۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا:
"یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں... مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں ۔
Thursday, 27 November 2025
جنت کی راہ























































.jpeg)
.jpeg)










.jpeg)
.jpeg)